Wheat Sowing on Beds and Ridges
گندم کے طریقہ کاشت سے متعلق پیداواری ٹیکنالوجی تعمیری تنقید کی درخواست کے ساتھ ماہرین سے اصلاح کی امید پر لکھ رہا ہوں
گندم کا شمار چاول اور مکئی کے ساتھ ساتھ دنیا کی اہم ترین سٹیپل فوڈز میں ہوتا ہے. دنیا کی کل آبادی کا پینتیس فیصد حصہ اپنی بنیادی خوراک کی ضروریات کے لیے گندم پر انحصار کرتا ہے. گندم کے بڑے پیداواری ممالک میں پاکستان کا آٹھواں نمبر ہے، جو کہ ہمارے قدرتی وسائل کے لحاظ سے بالکل بھی قابل ستائش نہیں. فرانس جیسا پاکستان سے نسبتاً ٹھنڈا اور اور بلحاظ رقبه چھوٹا ملک بھی گندم کی پیداوار میں پاکستان سے آگے ہے. اور اگر فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے دیکھا جائے تو پھر هم کسی قطار میں ہی نہیں
اگر پاکستان کے چند زمیندار 90 من فی ایکڑ تک پیداوار لے سکتے ہیں تو ایک عام پاکستانی کسان کیوں نہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی کسانوں کو حکومتی اور نجی اداروں کے ذریعے معیاری بیج، متوازن اور بروقت کھاد أور بہترین پیداواری ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں. اور یہ سب اقدامات زمین کی ساخت اور علاقائی ضروریات کے مطابق اٹهائے جائیں. ان بنیادی اقدامات سے همارا پیارا پاکستان گندم کیپیداوار میں بہت آگے جا سکتا ہے. قومی سطح پر پاکستان کی گندم کی فی ایکڑ پیداوار محض 28 من ہے. جو کہ هماری صلاحیت اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے انتہائی کم ہے. عزم، تجربے، علم اور صحیح وقت پر صحیح چیز کے استعمال سے بظاہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے. نامساعد حالات کے باوجود آگے بڑھنا ہی ترقی کی اصل ہے.
مشورے تو بہت دیے جا سکتے ہیں مگر مختصراً چند اہم ترین یہ ہیں کہ ہم نامیاتی اور sustainable زراعت کی طرف لوٹیں. بروقت اور بلحاظ ضرورت پانی اور کھاد کا استعمال کریں. ترقی دادہ اقسام کے بیج کاشت کریں. اور اپنی فصلات کی کاشت، نگہداشت اور برداشت کو موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں. یہ باتیں پھر صحیح، فی الحال اس مضمون کا موضوع طریقہ کاشت میں تبدیلی سے متعلق ہے.
راقم نے آج سے چند سال پہلے سنا کہ گندم کی کهیلیوں پر کاشت کے ذریعے ناصرف پانی کی بچت ہوتی ہے بلکہ زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے اور ناموافق موسمی حالات میں فصل گرنے سے بھی محفوظ رہتی ہے. کهیلیوں پر کاشت شدہ گندم کی تصاویر دیکھیں تو دل میں مزید شوق پیدا ہوا. یہ تصاویر محکمہ زراعت اور واٹر مینجمنٹ والوں کی طرف سے دیئے گئے لٹریچر (جو کہ گندم کے بارے میں نہ تھا) میں دیکھیں. بہر حال مصمم ارادہ کر لیا کہ اس ٹیکنالوجی کو ضرور ٹیسٹ کرنا ہے. گندم کے سیزن سنہ 2013-14 میں مختلف جگہوں سے پتہ کرتے کراتے ایک ڈرل کا پتہ چلا جو کہ غالباً NARC, JICA اور UAF والوں کے تعاون سے تیار کی گئی تھی. ضلع بہاولنگر میں ایک صاحب کو سرکاری سکیم کے تحت یہ ڈرل دی گئی تھی لیکن وہ اس کا استعمال چھوڑ چکے تھے. یہ ڈرل جسے multicrop planter بھی کہا جاتا ہے بیک وقت کھیلیں بھی بناتی ہے اور بیج بھی ڈرل کرتی ہے. اس پلانٹر میں متعدد adjustments بھی موجود ہیں اور یہ دیگر فصلات مثلاً مکئی وغیرہ کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے. بہر کیف یہ ڈرل مستعار لے آئے اور اس سے 15 ایکڑ تجرباتی طور پر کاشت کر دیئے. کھاد اور پانی کی روٹین عام طریقے سے کاشت کی گئی گندم جیسی ہی رکهی.
اس کے ساتھ ہی والد صاحب جناب محمد خان خاکوانی کے مشورے سے ان ہی کی زیر نگرانی هم نے مزید 6 ایکڑ گندم کهیلیوں پر کاشت کی جس میں دوسرا تجربہ کیا گیا. خشک زمین میں تیاری کے بعد 50 کلو گرام فی ایکڑ گندم چهٹہ کر کے عام رجر ( کماد والا یا کپاس میں مٹی چڑھانے والا) سے کهیلیاں نکال دیں. اس کے بعد 15 کلو گرام مزید بیج کهیلیوں میں کیرا کروا دیا. مزید بیج کیرا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ رجر پھرنے سے کهیلیوں میں پیدا ہونے والی بیج کی کمی دور ہو جائے. کیونکہ رجر بیج کی تقریباً تمام مقدار کو وٹوں میں اکٹها کر دیتا ہے. آخر میں مزدوروں کے ذریعے ہلکے وزن والے بالے (نہ کہ سہاگہ) سے وٹوں یا رجز کی اونچائی تقریباً 2 انچ کم کر دی تاکہ کهیلیوں میں موجود بیج پر کچھ مٹی آ جائے. اس کے بعد پانی لگا دیا گیا.
بفضل تعالیٰ اوسط امید سے اچھی آئی اور دونوں تجربات کامیاب رہے. 15 ایکڑ والے تجربہ میں 450 من گندم آئی جو کہ 30 من فی ایکڑ بنتی ہے. لیکن خیال رہے کہ یہ پلاٹ سیم و تھور سے انتہائی طور پر متاثرہ تها، اس میں دسمبر کے وسط میں دوسری دفعہ کاشت میں مذکورہ پلانٹر کا استعمال کیا گیا. جبکہ اسی پلاٹ میں ماه نومبر میں ایک دفعہ پہلے کاشت جو روایتی طریقہ سے کی گئی تھی میں اگاو کی شرح صفر تهی. دوسری دفعہ کاشت میں بهی تقریباً 15 میں سے 7 ایکڑ بوجہ سیم نہ اگے. یعنی درحقیقت یہ 450 من پیداوار 8 ایکڑ سے آئی جو کہ تقریباً 56 من بنتی ہے. اس طریقے کو ہم نے beds والی گندم کا نام دیا.
دوسرے تجربہ جس میں چهٹہ اور رجر کا أستعمال کیا گیا تھا اس کو ہم نے رجز والی گندم یا ridge sown wheat کا نام دیا. یہ 6 ایکڑ ایک کم زرخیز اور بالکل ریتلی زمین پر مشتمل ہیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ اوسط 40 من سے اوپر کبھی نہیں گئی. اس تجربے میں اوسط 53 من رہی اور انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی.
سیزن 2014-15 میں مزید تجربات کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ رجر سے کهیلیاں نکالنے کے بعد اضافی بیج نہ ڈالا گیا. مقصد یہ تھا کہ گندم کو بوٹا مارنے کا موقع دیا جائے. جیسا کہ ملٹی کراپ پلانٹر کے ذریعے کیا جاتا ہے. اس تجربے سے جو بات سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ ملٹی کراپ پلانٹر خالی زمین (یعنی کھیلوں والی زمین جس میں صرف پانی لگتا ہے اور گندم نہیں ہوتی) اور کوٹھے یا بیڈز (یعنی وہ حصہ جس پر گندم لگتی ہے) والی زمین میں ایک خاص تناسب قائم رکھتا ہے. ایسی رجز والی گندم جس میں کهیلیاں خالی رکهی جائیں (یعنی کهیلیاں نکالنے کے بعد اضافی بیج نہ ڈالا جائے) تو مذکورہ تناسب قائم رکهنا ممکن نہیں. لہذا اگر رجز والی گندم کاشت کریں تو کهیلیاں نکالنے کے بعد بھی ضرور مزید بیج ڈالیں اور کوئی جگہ خالی نہ چھوڑیں.
ایک اور تجربہ یہ کیا گیا کہ دسمبر کی 15 تاریخ کو کماد اور گندم کو اکٹھے کاشت کر دیا. گندم اور گنے کی مخلوط کاشت عرصہ دراز سے جاری ہے. مگر اس تجربے کی خاص بات گندم کا وٹوں پر رہنا اور کماد کا نیچے کھیلوں میں رہنا تھا. جبکہ عام طور پر کماد اور گندم اکٹھے کاشت کرنے کے بعد سہاگہ پھیر کر زمین ہموار کر دی جاتی ہے. کماد والے تجربے کا ذکر پھر کبھی. فی الحال کهیلیوں پر کاشت گندم کے حوالے سے اپنے دو سالہ تجربات کی روشنی میں اپنے تئیں بہترین مشورہ عرض کر دوں. لیکن اس سے پہلے اس طریقہء کاشت کی کامیابی کے پیچھے کارفرما چند بنیادی اصولوں پر ایک مختصر نظر تاکہ ان کاشت کار بھائیوں کو جو مروجہ طریقہ کار سے بہترین پیداوار لے رہے ہیں یہ سمجھایا جا سکے کہ یہ طریقہ ہموار زمین پر گندم چهٹہ یا ڈرل کرنے سے کیوں بہتر پے.
پانی تمام پودوں اور فصلات کی بنیادی ضرورت ہے لیکن عموماً اس حساب سے نہیں جیسے کہ هم نہری یا ٹیوب ویل والے علاقوں میں لگاتے ہیں. فلڈ اریگیشن سے نہ صرف پانی کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ چند روز یا کم از کم چند گھنٹوں کے لیے ہی سہی مصنوعی سیم (artificial water logging) والے حالات پیدا ہو جاتے ہیں. پانی کی زیادتی کی وجہ سے جڑوں کا نظام تنفس متاثر ہوتا ہے اور پودے جند دنوں کے لیے سٹریس میں چلے جاتے ہیں اور فصل چند روز بعد جا کر بحال ہوتی ہے. البتہ بہترین نکاسی والی زمینوں میں یہ مسئلہ بہت کم ہوتا ہے. اکثر فصلات کو اصل میں جو چیز چاہیے وہ وتر حالت (optimal moisture level) ہے جو کہ ہموار زمین پر بذریعہ فلڈ اریگیشن ممکن نہیں. یہی وجہ ہے کہ (high efficiency irrigation systems) ڈرپ اریگیشن سسٹم وغیرہ کی پیداوار زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ اس میں صرف وتر پہنچایا جاتا ہے. مزید برآں اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بنوں پر کھڑے گندم کے پودے ہمیشہ زیادہ صحت مند اور ان کے سٹوں کی لمبائی اور دانوں کی تعداد و صحت وغیرہ زیادہ بہتر ہوتی ہے. ایک اور فائدہ یہ ہے کہ چونکہ پودے وتر پر کھڑے ہوتے ہیں اس لیے ان کا جڑوں کا نظام زیادہ بڑا، بہتر، مضبوط اور تیزی سے ڈیویلپ ہوتا ہے. نتیجتاً کھیلیوں پر کاشت شدہ گندم کا گرنے کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے. مزید برآں ہوا کا گزر اور سورج کی روشنی کی زمین اور فصل تک پہنچ بهی بہتر ہو جاتی ہے.
کسی بھی فصل میں عمومی طور پر دو قسم کے طریقے اپنائے جاتے ہیں. ایک طریقہ میں توجہ پودوں کی تعداد پر ہوتی ہے. زیادہ پودے زیادہ پیداوار. جبکہ دوسرے طریقے میں توجہ پودوں کی کوالٹی پر ہوتی ہے. کم لیکن بہتر کوالٹی کے پودے جن پر پھل کی زیادہ تعداد اور بالآخر زیادہ پیداوار. اس دوران اسی سلسلے میں جناب محمد عمیر صاحب اور جناب حسن راشدی صاحب سے بھی رہنمائی لی. یہ دونوں حضرات کهیلیوں پر گندم کی کاشت کے تجربات کر چکے ہیں. اپنے تجربات کی روشنی میں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کم زرخیز زمینوں کے لیے چهٹہ والا سسٹم اور پہلا طریقہ بہتر ہے یعنی توجہ پودوں کی تعداد بڑھانے پر ہونی چاہئے مطلب رجز والی گندم زیادہ موزوں ہے.
اور زیادہ زرخیز زمینوں کے لے ملٹی کراپ پلانٹر استعمال کرنا چاہیے یعنی دوسرا طریقہ جس میں توجہ پودوں کی کوالٹی پر ہونی چاہئے. زرخیز زمین میں پودا زیادہ بوٹا بناتا ہے اور نتیجتاً فی پودا زیادہ سٹے اور زیادہ دانے حاصل ہوتے ہیں. یعنی زرخیز زمینوں کے لیے beds بیڈ والا طریقہ بہتر ہے. مزید یہ کہ تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلانٹر کے ذریعے 25 سے 30 کلو گرام بیج استعمال کرنے کے بہت زبردست نتائج سامنے آئے. مختصراً یہ کہ اس طریقے سے تقریباً ایک تہائی رقبہ خالی رہنے اور پودوں کی کم تعداد کے باوجود پیداوار زیادہ ہوتی ہے. اگر ملٹی کراپ پلانٹر میسر نہ ہو تو زرخیز زمین میں بھی رجز والا طریقہ بہتر ہے. یعنی موسم کے حساب سے 30 تا 40 کلو بیج پہلے چهٹہ کریں، رجر سے کهیلیاں نکالیں اور مزید 10 تا 20 کلو بیج کا کھیلیوں میں کیرا کروا دیں. اس کے بعد بالا پهیر کر پانی لگا دیں. میری نظر میں یہ دونوں طریقے یعنی بیڈز اور رجز والی گندم باقی تمام روایتی طریقوں سے زیادہ بہتر ہیں.
رجز والے طریقہ میں رجر سے کهیلیاں نکالنے سے نہ صرف رقبہ 15 سے 20 فیصد (surface area) بڑھ جاتا ہے بلکہ پودوں کی تعداد عام ہموار زمین پر کاشت شدہ گندم سے بھی بڑھ جاتی ہے.
آخر میں یہ کہ یہ مضمون ذاتی تجربات کی روشنی میں نیک نیتی سے تحریر کیا گیا ہے. اس طریقہ کو راقم کلراٹھی زمین، پکے رقبے، کچے رقبے، ریتلے رقبے، ہلکی میرا، بھاری میرا غرض ہر طرح کی زمین میں کامیابی سے آزما چکا ہے. میں بھرپور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ طریقہ کاشت اکثر اقسام کی زمینوں اور تقریباً ہر طرح کے حالات میں تمام روایتی طریقوں سے زیادہ کامیاب ہے. البتہ میری رائے میں ایسی زمینیں جو جزوی طور پر کلر یا نمکیات سے متاثر ہوں ان میں اس اس طریقہ کار کو استعمال نہیں کرنا چاہیے. کیونکہ اس سے نمکیات وٹوں پر اکٹھی ہو جاتی ہیں اور بعد والی فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے. ہاں ایسی زمینیں جو سیم و تهور سے انتہائی طور پر متاثر ہوں وہاں کهیلیوں پر گندم کاشت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کچھ نہ آنے سے کچھ آنا بہتر ہے. مزید برآں میری گزارش ہے کہ بارانی علاقہ جات کے کسان بھائی بھی کھیلیوں پر گندم کی کاشت کا تجربہ محدود پیمانے پر ضرور کریں اور پھر نتائج سے ہمیں آگاہ فرمائیں. مجھے قوی امید ہے کہ بارانی زمینوں پر بھی یہ طریقہ کامیاب رہے گا. اس کے ساتھ ہی وہ حضرات جو دھان کے بعد گندم کی کاشت کے لیے زیرو ڈرل استعمال کرتے ہیں سے بھی گزارش ہے کہ کم از کم ایک ایک ایکڑ پر ہی سہی زمین تیار کر کے کھیلیوں پر گندم کاشت کریں. میں پر امید ہوں کہ گندم کی اضافی پیداوار آپ کو زمین کی تیاری کا خرچہ اٹهانے پر مجبور کر دے گی جو کہ زیرو ڈرل استعمال کرنے سے بچ جاتا ہے
ایک غلطی جو عمومی طور پر کی جاسکتی اور کی جاتی ہے یہ ہے کہ چونکہ کھیلیوں پر ہونے کی وجہ سے فی ایکڑ پانی کم لگتا ہے لہذا کھیلیوں والی گندم کو زیادہ پانی لگائیں اور بار بار لگائیں
یاد رکھیں یہ ایک غلط تصور ہے اور بلا ضرورت یا اضافی پانی لگانے سے گندم کا جڑوں کا نظام متاثر ہوتا ہے، کھیلیوں پر کاشت کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور نتیجتاً پیداوار متاثر ہوتی ہے. لہذا پانی ضرورت کے مطابق لگائیں اور عموماً آپ کی گندم اگر 4 پانیوں سے پکتی ہے تو کھیلیوں پر کاشتہ گندم بھی 4 یا حد 5 پانیوں سے بہترین پک جائے گی. تاہم انتہائی ریتلے رقبے یا سخت موسم کی مناسبت سے پانیوں کی تعداد بڑھائی بھی جا سکتی ہے
کھیلیوں پر کاشتہ گندم
بیڈز پر کاشتہ گندم
2 thoughts on “Wheat Sowing on Beds and Ridges”
ham gandum k foran bad kia kasht karen…tubewell irrigated land in d g khan distt…
JazakAllah sir. agar apka cell number mil jye to main tafseli bat krna chahoon ga plzz..